A story

. *قصہ ایک ناجائز اولاد

کارتھج، حالیہ تیونس، آفریقہ کا ایک قدیم یونانی شہر تھا. رومی سلطنت نے جب زور پکڑا تو اس کا اور یونانی کارتھج جیسی طاقتور سلطنت کا  ٹکر ناگذیر ہوگیا. کارتھج اور روم کے درمیاں سو سالہ کشیدگی اور جنگ کے بعد بلآخر روم کی فتح ہوئی اور کارتھج کو تاراج کیا گیا، اس شہر کے سب لوگوں کو مار دیا گیا، عورتوں کو اسیر بنا لیا گیا. اس کے بعد کارتھج کا زمین پر نام و نشان تک باقی نہ رہا. رومیوں نے کارتھج پر ذرا بھی رحم نہ کیا!

اب آئیے دوسری طرف! اسی رومی سلطنت کے بادشاہ ویسپیسین کو خبر ملتی ہے کہ یروشلم کے یہودیوں نے 
بغاوت کر دی ہے، تو اس نے اپنے جنرل ٹیٹوس کی سپہ سالاری میں ایک لشکر یہودیوں کو سرنگوں کرنے کیلئے بھیجا، ۱۳۹ دن کے محاصرے کے بعد بلآخر یروشلم کے یہودیوں کو شکست ہوئی، سب یہ سمجھ رہے تھے کہ رومی فوج کارتھج کی طرح یروشلم کو بھی تاراج کرے گی اور یہودیوں کا نام و نشان بھی نہ ملے گا مگر ایسا نہ ہوا...!!!

اس کی وجہ کیا تھی؟ وجہ تھی یہودیوں کی فکر "بقا".  جی ہاں یہودیوں کا سب سے پہلا اصول ہے یہودیت کی بقا! یہودی سمجھتا ہے کہ دنیا کی ساری نسلیں پست ہیں اور یہ پست نسلیں ان کی اعلی نسل کو   مٹانا چاہتی ہیں لیکن انہیں باقی رہنا ہے اور اس بقا کی خاطر یہ یہودی کسی بھی قبیح کام کرنے سے نہیں کتراتے. سو جب ان یہودیوں نے دیکھا کہ ہم پر رومیوں کا غلبہ ہو چکا تو انہوں نے اپنے دین، یہودیت کا سب بڑا پیغام لوگوں میں عام کرنا شروع کیا اور وہ تھا *جو ایک گال پر مارے اسے دوسرا گال پیش کرو، ظلم سے مزاحمت نہ کرو* یہ چال کامیاب ہوئی، رومیوں نے ان پر ہلکہ ہاتھ رکھا اور یہودی مکمل طور دنیا سے مٹ جانے سے بچ گئے اور کئی یہودی یروشلم کی تباہی کے بعد روم ھجرت کر گئے اور بڑے شاطرانہ طریقے سے سلطنت روم کی جڑیں کریدنے لگے جس کا نتیجہ سلطنت روم کے زوال کے طور پر سامنے آیا.

اسلام سے قبل عرب معاشرے میں یہ یہودی سود خوری کے علمبردار تھے، حضرت محمد (ص) نے جب اسلام کا پیغام عام کرنا شروع کیا تو مدینہ کے یہودیوں نے اپنی اسی پرانی شاطرانہ چالباز فطرت سے کام لینا شروع کیا، میثاق مدینہ پر دستخط کرنے کے باوجود اس کے کئی شرائط کو توڑنا، جنگ پر جاتے ہوئے آدھے راستے میں اچانک سے رسول (ص) و لشکر اسلام کا ساتھ چھوڑدینا تو کنار ، انہوں نے رسول (ص) کو بلا کر ان پر چھت سے بڑا پتھر پھینک کر آپ (ص) کی جان لینے کی بھی کوشش کی. کیونکہ محمد (ص) کے پیغام سے یہودیت کی بقا کو خطرہ لاحق تھا جو کہ کسی بھی یہودی کیلئے قبول نہیں.

آج کا یہودی بھی اسی یروشلم اور عربستان کے اپنے   بزرگوں کی مانند یہودیت کی بقا کیلئے ہر قسم کے شاطرانہ، ظالمانہ، سفاکانہ فعل کے ارتکاب کو جائز سمجھتے ہیں.
یہی وجہ ہے کہ جب آمریکا نے دنیا میں ترقی کرنا شروع کی تو دنیا کے یہودیوں نے اس طرف رخ کیا اور امریکا کے شہر نیویارک میں اپنی کثرت کو یقینی بنایا تاکہ آمریکا کے ساتھ رہ کر اپنی بقا کو یقینی بنایا جائے.
جب آمریکا کی تجارت میں ان یہودیوں نے نفوذ کیا تو آمریکی اور یورپی خارجی پالیسیوں پر ان کا اثر و رسوخ پیدا ہونے لگا اور *تب انہیں خیال آیا کہ ہمارا اپنا ایک ملک ہو!*

فلسطین! جو کہ ایک مدت سے برطانیہ کے زیرنگرانی تھا لیکن جنگ عظیم "دوم" کے بعد برطانیہ کو بھاری نقصان اٹھانے کی وجہ سے جہاں اسے اپنی تمام  کالونیز سے دستبردار ہونا پڑا، وہاں فلسطین سے بھی اس نے اپنا گونر واپس بلانے کا اعلان کیا اور برطانوی گورنر فسلطینی عربوں اور یہودیوں کو امن و آشتی سے رہنے کا پیغام دے کر ۱۴ مئی ۱۹۴۸ع کو اپنے ملک برطانیہ لوٹ گیا.

اب چونکہ یہودی اپنی بقا کی خاطر ہر قسم کا قبیح طریقہ استعال کرنے سے دریغ نہیں کرتے سو اسی دن سپہر ۴ بجے تل اویو کے ایک عجائب گھر میں یہودی قومی کاؤنسل کے ڈیوڈ بین گریون نے تقریبا ۲۰۰ لوگوں کے مجمعے کے سامنے ایک یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا. ۱۹۰۰ سال میں پہلی بار یہودیوں کو اپنے ملک دینے کے اس اعلان کی حمایت اقوام متحدہ پہلے کی کرچکا تھا رہی سہی کسر آمریکا کے صدر ھیری ٹرومین نے اسی دن ہی حمایت کرکے پوری کردی. *اس طرح آمریکا کی ناجائز اولاد نے جنم لیا اور مسلمانوں کی اکثریت والے ارض فلسطین پر قبضہ کرتے ہوئے یہودیوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس پر بھی قبضہ کر لیا اور دنیا سے جوق در جوق یہودی اس سرزمین پر اپنے نجس قدم رکھنے لگے، یہودیوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہوتی گئی اور یہ ظلم اب تک جاری ہے.*

عرب لیگ کے تیل سے مالا مال ممالک کے سربراہان ایک بار اسرائیل سے رسوا ہوکر چپ ہوگئے اور آج تک خاموش ہیں، اگر دنیا بھر میں یوم القدس منانے کا اعلان کرتا ہے تو وہ خمینی (رح) کی شکل میں کوئی شیعہ ہی ہوتا ہے اور اقوام متحدہ میں کوئی آواز اٹھاتا ہے تو وہ ایرانی صدر کی صورت میں کوئی شیعہ ہی ہوتا ہے یا پھر ۳۳ روزہ جنگ میں اسرائیل کو چنے چبانے والا کوئی کمانڈر نظر اتا ہے تو وہ بھی شیعہ سید حسن نصراللہ ہے.
*یہودیوں کو آج اگر اپنی بقا -جو ان کو بہت عزیز ہے، کیلئے خطرہ ہے تو صرف و صرف شیعان حیدر کرار سے ہے، اسی حیدر کرار (ع) کی پاکیزہ اولاد سے کہ جس نے ان کے آبا و اجداد کے قلعۂ خیبر کو اکھاڑا تھا اور یوم القدس کی یہ ریلیاں گواہ ہیں کہ آمریکا کی اس ناجائز اولاد اسرائیل کی نابودی  علی (ع)  کے حلالی بیٹے سید علی خامنہ ای (زید عزہ) کے ہاتھوں ہونے والی ہے کیونکہ اللہ (ج) کا وعدہ ہے حق آئے گا باطل مٹ جائے گا.*

Comments

Popular Posts