Hazrat Ali a.s ki Fights

. قسط 1
حضرت علی علیہ السلام کی مختصرخلافت میں تین جنگیں ہوئیں ، جنگ جمل ، صفین ، نہروان اور یہ تینوں جنگیں پانچ سال کے اندر پیش آئیں اور ان جنگوں میں ہزاروں لوگ مارے گئے ۔ان جنگوں کی وجہ سے لوگوں کی روحیوں پر بہت برا اثر پڑا اور لوگوں کے عقائد کمزور پڑھ گئے اور ان کی اجتماعی زندگی بہت سختی سے گذرنے لگی ۔ جبکہ ابھی تک لوگوں کے درمیان پیغمبر اکرم ؐ کے اصحاب زندہ تھے جو حضرت علی علیہ السلام کی منزلت اور حقانیت سے کاملاً آشنائی رکھتے تھے حتی حضرت علی ؑکے ہمراہ جنگوں میں حصہ لیا تھا مگر کم علمی اور ایمان اور عقائدکی ضعف کی وجہ سے اورجوامع اسلامی میں آپس میں ہونے والی جنگوں کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں آپ کی انجام دی ہوئی جنگیں بھی قدرت کے حصول اور حاکمیت کی خاطر ہونے والی جنگیں حساب کرنے لگے اور اسی وجہ سے خوارج کا گروہ تشکیل پایا اور یہ خوارج کی خارجی گری اور مذہب و خلافت سے دوری باعث بنی کہ ایساگروہ تشکیل پائے جو باعث بنے کہ روئے زمین کے سب سے عظیم شخص کو شہید کردیاجائے۔
جب گروہ خوارج نے اپنے استدلال کے ذریعے اس بات کو یقینی کرلیا کہ ان لوگوں کو قتل ہونا چاہئے تو اس کے اجراء کے لئے انہوں نے مکہ میں ایک جلسہ تشکیل دیا اور اس جلسہ میں مسلمانوں کے رہبروں کے بارے میں تفصیلی گفتگوکی اور ان کے انجام دیئے ہوئے کاموں کو معیوب حساب کیا اور اس جلسہ میں نہروان کی جنگ میں مارے جانے والوں کے لئے دعائے مغفرت کی اورافسوس کا اظہار کیا اور سب نے مل کرکہا کہ : اگر ہم اپنے خدا کے ساتھ معاملہ کریں اور اپنی جان کو اس کی راہ میں فدا کرنا چاہیں تو ہم پر لازم ہے سب سے پہلے مسلمانوں کے حکام کی طرف جائیں اور ان کو غافلگیرانہ طور پر قتل کردیں تاکہ لوگ ان کے ہاتھوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔
اسی وجہ سے سب نے پیمان اور عہد کیاکہ ذوالحجہ کے مہینہ کے بعد اس خبیث نقشہ کو اجرا ء کریںعبدالرحمن بن ملجم مرادی نے کہا کہ علی ؑ کو قتل کرنے کی ذمہ داری میری ہے برک بن عبداللہ تمیمی نے معاویہ کو قتل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور عمرو بن بکرنے عمرو عاص کو قتل کرنے کی ذمہ داری سنبھال لی (الارشاد ص ١٦تاریخ خلفاء ص ١٧٥۔)
اور سب نے عہد کیا کہ کسی بھی وجہ سے اپنے اس عہد سے نہ پھیریں اور ماہ رمضان کی ایک رات کو اس عہد پر عمل کریںاور اس کام کے لئے ١٩ رمضان کی رات معین کی گئی ۔( شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٦ ص ١١٣۔)
استاد شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں :خوارج یعنی شورش گر اور طغیان کرنے والے افراد یہ کلمہ خروج سے یعنی سرکشی اور طغیان کے معنی میں آتا ہے۔ یہ گروہ جنگ صفین میں تشکیل پایا اور اس گروہ کے بننے میں معاویہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے ، معاویہ نے عمرو عاص کی مشورت سے ایک بڑی اور ماہرانہ چال چلی حکم دیا کہ قرآنوں کو اپنے نیزوں پر اٹھاؤجسکی وجہ سے کچھ لوگ جو نادان اور مقدس نما تھے جو کہ تعداد میں بہت زیادہ تھے معاویہ کی اس چال کے چکر میں آگئے اور جب مولا نے حکم دیا کہ جنگ کو ادامہ دو تو یہ لوگ ایک دوسرے کو اشارہ کرکے کہتے ہیں : علی ؑ کیاکہہ رہا ہے ہم قرآن کے ساتھ لڑیں۔
یہ گروہ شروع میں تو ایک باغی اور سرکش فرقہ تھا مگرآہستہ آہستہ ان لوگوں نے ایک گروہ کی صورت اختیار کرلی اوراپنے لئے خاص عقائد اور اصول وضع کرنے لگے شروع میں تو فقط سیا سی طرح کے تھے مگر بعد میں ایک مذہبی فرقہ میں تبدیل ہوگیا ۔ اور ان کے ذہنوں میں یہ بات پرورش پائی کہ اسلام کے اندر ہونے والے مفاسد کو ختم کردیں ۔اور دنیا ئے اسلام سے مفاسد کے ریشہ کوسر ے سے مٹادیں ۔ اور اس نتیجہ پرپہنچے کہ عثمان ، علی و معاویہ سب سے زیادہ خطا کار اور گناہ گنارہیں ۔ یہ گروہ شروع میں تو عثمان و علی کی خلافت کے قائل تھے مگر وہ کہتے تھے کہ عثمان اپنی خلافت کے چھٹے سال سے صحیح راستہ سے ہٹ کر مصالح مسلمین کے ضرر والے راستہ پر گیاہے لہذا واجب القتل ہے اور حضرت علیؑ نے تحکیم کے مسئلہ کو قبول کیاہے اور توبہ نہیں کی لذا(العیاذباللہ)واجب القتل ہے ۔( جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام ص١١٤لی ١٣٠۔)
ابن ملجم
حضرت علی کا قاتل۔ عبدالرحمن ابن ملجم۔ خوارج میں سے تھا۔ کچھ روایات کے مطابق نہروان کی شکست کے بعد خارجیوں نے تین آدمیوں کو علی ع   معاویہ اور عمرو بن العاص کو بیک وقت قتل کرنے پر مامور کیا۔
ابن ملجم نے علی المرتضیؑ کو شہید کرنے کا ذمہ لیا۔ تینوں نے تجویز کے مطابق ایک ہی دن فجر کے وقت وار کیے۔  معاویہ پر وار اوچھا پڑا۔ عمرو بن العاص کی جگہ دوسرا آدمی قتل ہوا۔ لیکن علیؑ کو زہر آلود خنجر کا کاری زخم لگا اور تین دن بعد 21 رمضان 40ہجری کو علیؑ رحلت فرما گئے۔کچھ اور روایات کے مطابق ابن ملجم کو  معاویہ بن ابی سفیان نے علی کے قتل پر مامور کیا تھا۔[1]۔[2]۔[3]۔[4] خود ابن ملجم نے اس بات کا اقرار کیا اور کہا کہ میں نے معاویہ کے کہنے پر ایسا فعل کیا جس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔[5]۔[1]۔
[6]۔ آپؑ کے وصال کے بعد لوگوں نے ابن ملجم کو حضرت حسنؑ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے خود اسے قتل کیا یہ 40ھ کا واقعہ ہے۔
حوالہ جات
1^ .1 تاریخ طبری جلد 4 صفحہ 599
2^ مروج الذہب مسعودی ص 303 جلد 2
3^ تاریخ ابوالفداء جلد 1 ص 183
4^ روضۃ الصفا جلد 3 ص 7
5^ ذکر العباس صفحہ 20
6^ مقاتل الطالبین ص 51

Comments

Popular Posts