Mola Ali a.s shaheed Mutahri ki Nazr may

. علی ؑ ‘ امام اور سچے پیشوا
تاليف: استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی عظیم اور ہمہ گیر شخصیت اس قدر وسعتوں اورگوناگوں پہلوؤں کی حامل ہے کہ کوئی ایک فرد اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کر سکتا اور اس میں اپنی فکر کے گھوڑے نہیں دوڑا سکتا۔ ایک فردکی زیادہ سے زیادہ بساط یہ ہے کہ وہ آپ کی عظمت کے ایک یا چند مخصوص اور محدود پہلوؤں کو مطالعے اور غور و فکر کے لیے منتخب کرے اور اسی پراکتفا کرے۔

اس عظیم شخصیت کے وجود کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک پہلو انسانوں پر مرتب ہونے والا آپ کا مثبت یا منفی اثر ہے ۔ باالفاظِ دیگر آپ کے جاذبے اور دافعے (Attraction and Repulsion) کی عظیم قوت ہے، جو اب بھی فعال اور موثر کردار ادا کرتی ہے۔

دوسرے انسانوں کی روحوں اور نفوس میں ردِّ عمل ایجاد کرنے کے حوالے سے ہر فرد کی شخصیت یکساں نہیں ہوتی۔ شخصیت جتنی حقیر ہو گی اتنی ہی کم اذہان کو اپنی طرف متوجہ کرے گی اور دلوں میں معمولی جوش و ولولہ ہی پیدا کر پائے گی۔ اسکے برعکس شخصیت جس قدر عظیم اور طاقتور ہو گی، اتنی ہی افکار کو جھنجوڑنے والی اور ردِّعمل پیدا کرنے والی ہو گی، چاہے یہ ردِّعمل موافق ہو یا مخالف ۔

فکر انگیز اور ردِّ عمل سازشخصیتوں کا ذکر زبانوں پر زیادہ آتاہے، وہ بحث و مباحثے اور اختلافِ نظر کا باعث بنتی ہیں، شعر وشاعری، مصوری اور فن کے دوسرے مظاہر کامو ضوع قرارپاتی ہیں، نیزداستانوں اور تحریروں میں انہیں ہیر و قرار دیا جاتا ہے۔یہ تمام چیزیں ہیں جوحضرت علی ؑ کے بارے میں بدرجۂ اتم موجود ہیں اوراس اعتبار سے شاید ہی کوئی ان کا رقیب ہو۔

کہتے ہیں کہ محمد ابن شہر آشوب مازندرانی، جو ساتویں صدی کے اکابرعلمائے امامیہ میں سے ہیں، جب اپنی مشہور کتاب ”مناقب“تالیف کر رہے تھے، تو اس وقت ان کی لائبریری میں مناقب کے نام سے ایک ہزار کتابیں موجود تھیں، جو سب کی سب حضرت علی ؑ کے بارے میں لکھی گئی تھیں۔ اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولا علی ؑ کی عظیم شخصیت نے طولِ تاریخ کے دوران کتنے ذہنوں کو مشغول رکھاہے !

حضرت علی علیہ السلام اور نورِ حق سے روشن ایسی دیگر شخصیات کا بنیادی امتیازیہ ہے کہ وہ ذہنوں کو مشغول رکھنے اور افکار کو سرگرم رکھنے کے ساتھ ساتھ قلب و روح کو بھی نور و حرارت، عشق و نشاط اور ایمان و استحکام بخشتی ہیں۔

سقراط، افلاطون، ارسطو، بوعلی سینا اور ڈیکارٹ جیسے عظیم فلسفیوں نے بھی لوگوں کے فکر و خیال اور ان کے اذہان کو مشغول رکھا ہے۔خاص کر حالیہ دو صدیوں سے تعلق رکھنے والے سماجی انقلابات کے قائدین، لوگوں کے اذہان اپنی طرف متوجہ کرنے کے علاوہ اپنے پیروکاروں میں ایک طرح کا تعصّب بھی پیدا کر گئے۔ مشائخِ عرفان اپنے پیروکاروں کو بالآخر ”تسلیم“کے اس مرحلے تک پہنچادیتے ہیں کہ اگر پیر مغاں اشارہ کر ے تو وہ جائے نماز کو شراب سے رنگین کر دیں۔ لیکن ان میں سے کسی میں بھی ہمیں گرمی و حرارت کے ساتھ وہ نرمی و لطافت اور خلوص ورِقَّت نظر نہیں آتی، جو تاریخ حضرت علی ؑ کے پیروکار وں میں دکھاتی ہے۔ اگر صوفیہ نے درویشوں کے لشکرِجرار اور موثر مجاہدین تیار کئے ہیں، تو ایسا انھوں نے اپنے نام پر نہیں بلکہ علی ؑ کے نام پر کیا ہے۔

معنوی حسن اور زیبائی، جوخلوص و محبت کو جنم دیتی ہے، وہ علیحدہ بات ہے اورمعاشرتی قائدین کی خصوصیت دنیاوی ریاست، منفعت اور مصلحت، یا فلسفیوں کی متاع عقل اور فلسفہ، یا ایک عارف کا سرمایہ اقتدارو تسلط کا اثبات، وہ دوسری باتیں ہیں۔

مشہور ہے کہ بوعلی سینا کے شاگردوں میں سے ایک (بہمن یار) اپنے استاد سے کہا کرتا تھا کہ اگر آپ اپنی غیر معمولی فہم وفراست کی بنا پرنبوت کا دعویٰ کردیں تو لوگ اسے تسلیم کر لیں گے۔ یہ سن کر بو علی سینا خاموش رہا کرتے تھے ۔یہاں تک کہ ایک مرتبہ سخت سردیوں کے موسم میں دونوں کسی سفر پر ساتھ تھے ۔صبح کے قریب بوعلی سینا نیند سے بیدار ہوئے، انھوں نے اپنے اس شاگرد کو جگاکر کہاکہ: مجھے پیاس لگی ہے، تھوڑا سا پانی لادو۔ شاگرد بہانے بنانے اور عذر تراشنے لگا۔ بوعلی سینا کے تمام تراصرار کے باوجود شاگردشدید سردی میں اپناگرم بستر چھوڑنے پر تیار نہ ہوا۔اُسی وقت گلدستۂ اذان سے مؤذّن کی صدا بلند ہوئی :اَﷲُاَکْبَرُ۔اَشْہَدُاَنْ لا اِلٰہَ اِلاَّاﷲُ۔ اَشْہَدُاَنَّ مُحَمَّداًرَسولُ اﷲِ۔

بوعلی نے اپنے شاگر د کو جواب دینے کے لیے موقع مناسب سمجھا اوراس سے کہا کہ تم توکہتے تھے کہ اگر میں نبوت کا دعویٰ کروں تو لوگ مجھ پرایمان لے آئیں گے۔ اب دیکھو! میری موجودگی میں تومیرا حکم تم پر چلتا نہیں جبکہ تم نے سالہا سال میرے دروس سے کسبِ فیض کیا ہے، میرا تم پر اتنا بھی اثر نہیں ہے کہ تم مجھے پانی پلانے کے لیے ایک لحظے کو اپنا بستر چھوڑدو لیکن یہ مؤذّن چارسو سال بعد بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے اپنا گرم بسترچھوڑ کر اس بلندی پر جاکر اللہ کی وحدانیت اور آنحضرؐت کی رسالت کی گواہی دے رہا ہے، تم نے دیکھا کہ مجھ میں اور آنحضرت میں کتنا فرق ہے؟

جی ہاں ! فلسفی شاگردتیار کرتے ہیں نہ کہ پیروکار ۔سماجی رہنما متعصب پیروکارپیدا کرتے ہیں نہ کہ مہذّب انسان ۔قطب ومشائخِ عرفان اربابِ تسلیم پیدا کرتے ہیں نہ کہ سرگرم مؤ من مجاہد۔

حضرت علی علیہ السلام میں فلسفی، انقلابی رہنما، پیرِ طریقت اور پیغمبروں جیسی خصوصیات یکجا ہیں ۔علی ؑ کا مکتب، مکتبِ عقل و فکر بھی ہے، مکتبِ ہیجان و انقلاب بھی ہے، مکتبِ تسلیم بھی ہے، مکتبِ نظم و ضبط بھی اور مکتبِ حسن و زیبائی اور جذبہ و حرکت بھی۔

حضرت علی علیہ السلام دوسروں کے لیے ایک عادل امام ہونے اور دوسروں کے لیے عدل و انصاف کا پیکر ہونے سے پہلے، خود اپنی ذات میں ایک متعادل اور متوازن شخصیت تھے۔ انہوں نے انسانیت کے جملہ کمالات کو اپنی ذات میں یکجا کرلیا تھا۔آپ دور رس فکر اور عمیق تفکر کے ساتھ انتہائی لطیف و مہربان احساسات کے حامل تھے۔ان میں جسم و روح کے کمالات بیک وقت موجود تھے۔راتوں کو عبادت کے دوران اللہ کے سواہر شئے سے ان کا رشتہ کٹ جاتا اور دن کو معاشرتی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔دن کے وقت انسانی آنکھیں علی ؑ کی ہمدردیا ں اور قربانیاں دیکھتیں، ان کے کان علی ؑ کے وعظ و نصیحت اور حکیمانہ باتیں سنتے اور رات کے وقت ستاروں کی آنکھیں ان کے بندگی کے آنسو ؤں کا مشاہدہ کرتیں اور گوشِ فلک ان کی عشق میں ڈوبی ہوئی مناجات سنتا۔ وہ مفتی بھی تھے اورفلسفی بھی، عارف بھی تھے اور سماجی رہنما بھی، زاہد بھی تھے اور مجاہد بھی، قاضی بھی تھے اور مزدور بھی، خطیب بھی تھے اور ادیب بھی ۔غرض آپ ہر لحاظ سے تمام تر خوبصورتیوں کے مالک ایک انسانِ کامل تھے۔

حضرت علی ؑ کا جاذبہ اس قسم کا ہے که اس نے کثیر تعداد میں انسانوں کو بھی اپنا مجذوب بنایا ہے اور مسلسل ایک یا دو صدیوں تک نہیں بلکہ صدیوں تک جاری رہا ہے اور وسعت اختیار کی ہے۔ ایک ایسی حقیقت ہے جو صدیوں سے درخشاں ہے اور قلب و باطن کی گہرائیوں میں اترتی رہی ہے۔ لہٰذا صدیوں بعد بھی جب لوگوں کواُن کی یاد آتی ہے اور وہ اُن کی اخلاقی صفات سنتے ہیں، تو اشکِ عقیدت بہاتے ہیں اور اُن کے مصائب یاد کرکے گریہ کرتے ہیں ۔یہاں تک کہ اس جاذبے نے دشمن کو بھی متاثر کیا اور اُسکی آنکھوں سے بھی آنسوجاری کروائے۔اور یہ طاقتور ترین جاذبہ ہے۔

یہاں سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ دین کے ساتھ انسانی رشتہ، مادّی رشتوں کی طرز کا نہیں ہے، بلکہ ایک دوسری قسم کا رشتہ ہے اور انسانی روح کے ساتھ دنیا میں کسی اور چیز کا رشتہ ایسا نہیں ہوتا۔

حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت میں اگر خدائی رنگ نہ ہوتا، اوراگر وہ مردِ خدا نہ ہوتے، تو فراموش ہو چکے ہوتے ۔انسانی تاریخ میں بہت سے بطلِ جلیل گزرے ہیں۔مردانِ میدانِ خطابت، مردانِ علم و فلسفہ، مردانِ قدرت و سلطنت، مردانِ میدانِ جنگ، لیکن یا تو ان کو انسانوں نے بھلا دیا ہے یا سرے سے پہچانا ہی نہیں ۔لیکن علی ؑ نہ صرف یہ کہ قتل ہونے کے باوجود نہیں مرے، بلکہ آپ زندہ تر ہوگئے ۔خودآپ فرماتے ہیں :

ھَلَکَ خُزّانُ الْاَ مْوالِ وَھُمْ اَحْیاءٌ وَالْعُلَماءُ باقونَ ما بَقیِ الدَّھرُ۔ اَعْیانُھُمْ مَفْقودَۃٌ وَاَمْثالُھُمْ فیِ الْقُلوبِ مَوْجودَۃٌ۔

مال جمع کرنے والے زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہیں، اور علمائے ربّانی اُس وقت تک باقی ہیں جب تک زمانہ باقی ہے۔ ان کے جسم نظروں سے اوجھل ہیں، لیکن اُن کے آثار دلوں میں موجود ہیں ۔ (نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار۱۴۷ )

خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں :

غَداً تَرَوْنَ اَیّامی وَیُکْشَفُ لَکُمْ عَنْ سَراءِری وَ تَعْرِفونَنی بَعْدَخُلُوِّ مَکانی وَقِیامِ غَیْری مَقامی۔

کل تم میرے ایام دیکھو گے اور میری وہ خصوصیات تم پر آشکار ہوجائیں گی جن کو تم نے نہیں پہچانا۔ میری جگہ خالی ہونے اوراس جگہ دوسرے کے آجانے کے بعد تم مجھے پہچانو گے ۔ (۲)

عصرِ من، دانندۂ اسرار نیست
یوسف من بہر این بازار نیست

میرا زمانہ اسرار سے آگاہ نہیں ہے
میرا یوسف اس بازار کے لیے نہیں ہے

نا امیدستم زِیارانِ قدیم
طورِ من سوزد کہ می آید کلیم

میں اپنے قدیم دوستوں سے مایوس ہوں
میرا طو ر، کلیم کے انتظار میں جل رہا ہے

قلزم یاران چو شبنم بی خروش
شبنم من مثلِ یمّ طوفان بہ دوش

دوستوں کا سمندر، شبنم کی مانند تلاطم سے عاری ہے
میری شبنم موجوں کی طرح طوفانی ہے

نغمۂ من از جہانِ دیگر است
این جرس را کاروانِ دیگر است

میرا نغمہ کسی اور ہی دنیا سے ہے
صدائے جرس کسی اور ہی کا رواں سے آتی ہے

ای بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد
چشمِ خود بربست و چشمِِ ما گُشاد

بہت سے شاعر مرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں
وہ اپنی آنکھیں بند کر کے ہماری آنکھ کھولتے ہیں

رختِ ناز از نیستی بیرون کشید
چون گُل ازخاک مزارِ خوددمید

ان کا حسن نیستی سے طلوع ہوتا ہے
اپنے مزار کی خاک سے پھولوں کی طرح کھلتے ہیں

در نمی گنجدبہ جو عمّان من
بحرہا باید پی طوفانِ من

میرا عمان ندی میں نہیں سماتا
میرے طوفان کو سمندروں کی ضرورت ہے

برقہا خوابیدہ درجانِ من است
کوہ و صحرا باب جولان من است

میر ی جان میں بجلیاں کروٹ لے رہی ہیں
پہاڑ اور بیابان میری پہنچ کے لیے دروازے ہیں

چشمۂِ حیوان برائم کردہ اند
محرِم رازِ حیاتم کردہ اند

انہوں نے مجھے آب حیات بخشا ہے
انہوں نے مجھے رازِ حیات کا امین بنادیا ہے

ہیچ کس رازی کہ من گفتم نگفت
ہم چو فکرِ من دُر معنی نسفت

جو راز میں نے بتایا وہ راز کسی نے بیان نہ کیا
میری فکر کی طرح کسی نے معنی کے موتی نہ پروئے

پیر گردون بامن این اسرار گُفت
از ندیمان راز ہا نتوان نہفت(۳)

بوڑھے آسمان نے مجھے یہ راز سمجھائے
دوستوں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھی جاسکتی

درحقیقت حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت قوانینِ فطرت کی طرح جاویدانی ہے ۔وہ فیض کا ایسا سرچشمہ ہیں جو کبھی خشک نہیں ہوتا، بلکہ اس میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ بقول جبران خلیل جبران : ”وہ ان شخصیتوں میں سے ہیں جو اپنے وقت سے پہلے دنیا میں آئیں۔“

بعض لوگ صرف اپنے زمانے کے رہبر ہیں، اوربعض اپنے بعد بھی کچھ عرصے کے لیے رہنماہیں اور رفتہ رفتہ ان کی قیادت بھلا دی جاتی ہے، لیکن علی ؑ اور گنتی کے چند اور انسان ہمیشہ ہادی اور رہبر رہتے ہیں ۔

حضرت علی علیہ السلام کا پورا وجود، آپ کی تاریخ و سیرت، آپ کاخُلق و خو، رنگ و بو اور آپ کی خطابت اور گفتگو درس ہے، نمونۂ عمل ہے، سبق اور رہنمائی ہے ۔

جس طرح حضرت علی علیہ السلام کے جاذبے ہمارے لیے درس اور سبق کی حیثیت رکھتے ہیں، اُسی طرح آپ کے دافعے بھی سبق آموز ہیں۔ہم عام طور پرحضرت علی ؑ کی زیارتوں اوراُن سے اظہارِ ادب کے دوسرے طریقوں میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم آپ کے دوستوں کے دوست اورآپ کے دشمنوں کے دشمن ہیں۔ اس بات کو دوسرے انداز سے یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہم اس نقطے کی طرف جاتے ہیں جوآپ کے جاذبے کی آغوش میں پایا جاتا ہے اور جسے آپ جذب کرتے ہیں، اور اُس نقطے سے دوری اختیار کرتے ہیں جسے آپ دفع اور مستردکرتے ہیں ۔

جو کچھ ہم نے گزشتہ بحثوں میں کہا ہے، وہ حضرت علی ؑ کے جاذبے اور دافعے کا صرف ایک گوشہ تھا، خاص طور پر حضرت علی ؑ کے دافعے کے بارے میں ہم نے اختصار سے کام لیا ہے۔ لیکن جو کچھ ہم نے عرض کیا ہے، اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ حضرت علی ؑ نے دو طبقات کو سختی کے ساتھ اپنے سے دور کیا ہے :

۱۔ شاطر منافق

۲۔ احمق زاہد

ان کے شیعہ ہونے کے دعویدار وں کے لیے یہی دو سبق کافی ہیں، تاکہ وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور منافقوں کے فریب میں نہ آئیں، وہ تیز نظر رکھنے والے بنیں، ظاہر بینی سے دستبردار ہو جائیں ۔ آج کا شیعی معاشرہ بُری طرح سے ان دو مصیبتوں میں مبتلاہے ۔

وَالسَّلامُ عَلیٰ مَنِ ا تَّبَعَ الْھُدیٰ 

Comments

Popular Posts